علماے کرام کی تنخواہ- اور -دہاڑی مزدوری

دولت مند طبقہ اور کام پر رکھنے والوں کے استحصال سے مزدوروں کو بچانے کے لیے مرکزی و صوبائی حکومتوں نے مزدور کو ملنے والی یومیہ مزدوری کی کم سے کم مقدار متعین کیا ہوا ہے۔لیکن اکثر گاؤں دیہات اور قصبوں میں علمائے کرام کو دہاڑی مزدور کی کم سے کم مقررہ اُجرت سے بھی کم تنخواہ دی جاتی ہے۔


زیر نظر مضمون میں ہم ہندوستان کی مرکزی حکومت اور راجیہ سرکاروں کی طرف سے مقرر کردہ یومیہ دہاڑی کے بارے میں جانیں گے۔ اور پھر علمائے کرام کو مساجد ومدارس سے ملنے والی تنخواہوں کا ان سے تقابل و تجزیہ بھی کریں گے۔ تاکہ علماے کرام اپنے واجبی حقوق جان سکیں اور نیک کام کے نام پر استحصال سے بچیں۔

معیاری تنخواہ ملنا علما کا واجبی حق ہے

یاد رہے خدمت دین کا مطلب یہ نہیں کہ علما اپنے واجبی حقوق اور ضروریات زندگی کے لیے لازمی مقدار اجرت بھی ترک کردیں۔ اور دوسروں کے دست نگر بنیں۔ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ چنا گیا تو آپ نے بھی اپنے لیے ایک مزدور کے برابر ملنے والی تنخواہ کو قبول کیا۔ اور جب آپ سے کہا گیا کہ اگر اس میں آپ کی ضروریات پوری نہ ہو سکیں تو کیا کریں گے؟ تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں اُسی سے کام چلا لوں گا، بلکہ آپ نے فرمایا کہ میں مزدوروں کی تنخواہ بڑھا دوں گا۔

اگرچہ اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ میں مزدور سے زیادہ تنخواہ نہیں لوں گا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ضروریات زندگی کے لیے کفایت کرنے والی تنخواہ ہر مزدور کو ملنا اس کا واجبی حق ہے۔اور وہ اس کو لے سکتا ہے۔ پھر وہ مزدور چاہے جتنا ہی نیک اور مقدس عہدے پر کیوں نہ فائز ہو ۔اگرچہ وہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں کی امامت کے عہدے پر ہی کیوں نہ مقرر ہو ۔

کم تنخواہ دینے والے مجرم ہیں

پس اگر کوئی مزدور اپنے واجبی حق کا مطالبہ کرے تو یہ بھی اس کا حق ہے اور اسے مطعون نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اور جو نہ دے وہ حق مار مجرم ہے۔ ہاں اگر کوئی عالم دین کم پر بھی راضی ہو جائے تو یہ عزیمت ہے۔ لیکن کسی بھی عالم دین کو یا اکثر کو عزیمت پر مجبور کرنا یہ شقاوت ہے۔
اور علمائے کرام کو بھی ایسی عزیمت سے بچنا چاہیے جس سے دوسرے علماے کرام کا نقصان ہو یا خود اس عہدے کی پامالی ہو جس پر وہ فائز ہیں۔

حکومت کی طرف سے مقرر کردہ عام مزدور کی کم سے کم تنخواہ
حکومت ہند اور صوبائی حکومتیں مزدورں کو کم سے کم ملنے والی تنخواہ افراد کے معیار سے طے کرتی ہیں جو کہ ترتیب اس طرح ہے
Unskilled
Semi skilled
Skilled
High skilled
یعنی
بے ہنر
کم ہنر
ہنر باز
ماہر فن
اور پھر اسی حساب سے ترتیب وار ہر ایک کو کم سے کم ملنے والی تنخواہ مقرر ہے، حتی کہ بے ہنر شخص کی بھی ایک تنخواہ مقرر ہے کہ اس سے کم اگر دیا جائے تو یہ قانون کے خلاف ہے اور اس شخص کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے ۔
ملک کے الگ الگ صوبوں میں ان کی مقدار میں تھوڑی بہت کمی وزیادتی بھی ہے لیکن ہر صوبے میں ایک مقررہ مقدار ضرور ہے۔